فضائل رمضان المبارک احادیث کی روشنی میں
حدیث ١:
اِنَّ الْجَنَّۃَ تَزَ حْرَفُ لِرَمْضَانَ مِنْ رَاسِ الََْحَوْلِ حَوْلٍ قَابِلٍ قَالَ فِاذَا کَانَ اَوَّلُ یَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ ہَبَّتْ رِیْحٌ تَحْتَ الْعَرْشِ مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ عَلَی الْحُوْرِ الْعَیْنِ فَیَقُلْنَ یَا رَبِّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ عِبَادِکَ اَزْوَجًا تَقِرُّبِہِمْ اَعْیُنُنَا وَ تَقِرُّ اَعْیُنُہُمْ بِنَا ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔مشکــٰوۃ ص ١٧٤)
بے شک جنت ابتدائے سال سے آئندہ سال تک رمضان شریف کے لئے آراستہ کی جاتی ہے۔ فرمایا جب پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ہوا سفید اور بڑی آنکھوں والی حوروں پر چلتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ اے پروردگار اپنے بندوں سے ہمارے لئے ان کو شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں۔
حدیث ٢:
نَادٰی مُنَادٍ مِّنَ السَّمَآءِ کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی انْفِجَارِ الصُّبْحِ یَا بَا غِیَ الْخَیْرِ تَمِّمْ وَ اَبْشِرْ وَیَا باَغِیَ الشَّرِ اَقْصِرْ وَ اَبْصِرْ ہَلْ مَنْ مُّسْتَغْفِرٍ یَّغْفِرُ لَہ، ہَلْ مَنْ تَائِبٍ یُّتَابُ عَلَیْہِ ہَلْ مَنْ دَاعٍ یُّسْتَجَابُ لَہ، ہَلْ مَنْ سَا ئِلٍ یُّعْطٰی سُؤَا لَہ، فِطْرٍمِّنْ کُلِّ شَہْرِ رَمَضَانَ کُلَّ لَیْلَۃٍ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ سِتُّوْنَ اَلْفًا فَاِذَاکَانَ یَوْمُ الْفِطْرِ اَعْتَقَ فِیْ جَمِیْعِ الشَّہْرِ ثَلَا ثِیْنَ مَرَّۃً سِتِّیْنَ اَلْفًا۔ (زواجر جلد اول)
رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی آسمان سے طلوعِ صبح تک یہ ندا کرتا رہتا ہے کہ اے خیر کے طلب گار تمام کر اور بشارت حاصل کراوراے بُرائی کے چاہنے والے رک جا اور عبرت حاصل کر۔ کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کی بخشش کی جائے ۔ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے۔ کیا کوئی دعا مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے ۔ کیا کوئی سوالی ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔ اللہ بزرگ و برتر رمضان شریف کی ہر رات میں افطاری کے وقت ساٹھ ہزار گناہ گار دوزخ سے آزاد فرماتاہے جب عید کا دن آتا ہے تو اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے کہ جتنے تمام مہینہ میں آزاد فرماتا ہے۔ تیس مرتبہ ساٹھ ساٹھ ہزار۔(یعنی اٹھارہ لاکھ)
حدیث ٣:
یَغْفَرُ لِاُمَّتِہ فِیْ اٰخِرِ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَہِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ قَالَ لَا وَلٰکِنَّ الْعَامِلَ اِنَّمَا یُوَفّٰی اَجْرُہ، اِذَا قَضــٰی عَمَلُہ، ۔ رواہ احمد (مشکوٰۃ ص١٧٤)
رمضانِ پاک کی آخری رات میں میری امت کی بخشش کی جاتی ہے۔ عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہ شبِ قدر ہے۔ فرمایا نہیں لیکن کام کرنے والے کا اجر پورا دیا جاتا ہے۔ جب کہ وہ اپنا کام ختم کرتا ہے۔
حدیث ٤:
اُحْضِرُوْ الْمِنْبَرَ فَحَضَرْنَا فَلَمَّاارْ تَقـٰی دَرْجَۃً قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقـٰی الدَّرْجَۃَ الثّانِیَۃَ قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا ارْتَقـٰی الدَّرْجَۃَ الثَالِثَۃَ قَالَ اٰمِیْنَ فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْکَ الْیَوْمَ شَیْــئًا مَا کُنَّا نَسْمَعُہ، قَال اِنَّ جِبْرَئِیْلَ عَرَضَ لِیْ فَقَالَ بَعُد مَنْ اَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرُ لَہ، قُلْتُ اٰمِیْنَ فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّانِیَہَ قَالَ بَعُدَ مَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ قُلْتُ اٰمِیْنَ۔ فَلَمَّا رَقِیْتُ الثَّالِثَۃَ قَالَ بَعُدَ مَنْ اَدْرَکَ اَبَوَیْہِ عِنْدَہُ الْکِبَرُ اَوْ اَحَدَہُمَا فَلَمْ یُدْ خِلَا ہُ الْجَنَّۃَ قُلْتُ اٰمِیْنَ (زواجر جلد اول)
تم لوگ منبر کے پاس حاضر ہو۔ پس ہم منبرکے پاس حاضر ہوئے ۔ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم منبر کے پہلے درجہ پر چڑھے تو فرمایا ''آمین''۔ جب دوسرے درجہ پر چڑھے تو فرمایا''آمین''۔ اور جب تیسرے درجہ پر چڑھے تو فرمایا ''آمین''۔ جب منبر شریف سے اترے تو ہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی کہ کبھی نہ سنتے تھے۔ فرمایا بے شک جبرئیل ں نے آکر عرض کی کہ ــ''بے شک وہ شخص دور ہو (رحمت سے یا ہلاک ہو) جس نے رمضان شریف کو پایا اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی'' میں نے کہا ــ''آمین ''۔ جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو اس نے کہا: ''وہ شخص دور ہو جس کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ درود شریف نہ پڑھے ''میں نے کہا ''آمین''جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو اس نے کہا کہ'' دور ہو وہ شخص جو اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کا موقع پائے پھر بھی کوتاہی کے نتیجے میں جنت میں داخل نہ ہوسکے ''میں نے کہا ''آمین''
حدیث ٥:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عنہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَا لِہَا اِلـٰی سَبْعِ مِائَۃٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالـٰی اِلَّا الصَّوْمِ فَاِنَّہ، لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ یَدْعُ شَہْوَتُہ، وَطَعَا مُہ، مِنْ اَجْلِیْ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہٖ وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَآءِ رَبِّہٖ وَلَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ وَالصِّیَامُ جُنَّــۃٌ ۔ الحدیث رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ ١٧٣)
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ راوی ہیں کہ رسول خُدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''آدم کے بیٹے کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے ایک نیکی سے دس گنا سے سات سو تک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''مگر روزہ کہ اس کا ثواب بے شمار ہے ، بے شک وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔'' روزہ دار اپنی خواہش اور طعام میرے لئے چھوڑتا ہے ۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ۔ ایک خوشی افطار کے وقت۔ اور ایک خوشی دیدارِ الٰہی کے وقت ۔ اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ اور روزے ڈھال ہیں۔''
حدیث ٦:
اِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجِنَانِ وَ غُلِّقَتْ اَبْوَابُ الْجَہَنَّمِ وَسُلْسِلَۃِ الشَّیَاطِیْنَ (بخاری)
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔

رمضان کے حروف اور ان کی برکتیں:
رمضان کے پانچ حروف ہیں
''ر'' رضوان اللہ (اللہ کی خوشنودی) ہے۔
''م'' محابۃ اللہ کی ہے (اللہ کی محبت)۔
''ض'' ضمان اللہ کا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری)
''الف'' الفت کا ہے اور
''ن'' سے مراد نور اور نوال ہے (مہربانی اور بخشش) (غنیۃ الطالبین ، صفحہ ٣٩٠)
روزہ نہ رکھنا گناہ کبیرہ ہے:
ارکانِ اسلام کا ایک رکن روزہ ہے۔ سردار دوجہاں سید کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ سب سے اول توحید و رسالت کا اقرار۔ اس کے بعد اسلام کے چار رکن ہیں۔ ١۔ نماز۔٢: روزہ۔ ٣: زکوٰۃ۔ ٤: حج۔ کتنے مسلمان ہیں جو مردم شماری میں مسلمان شمار ہوتے ہیں۔ لیکن ان چاروں ارکان میں سے ایک کے بھی کرنے والے نہیں ہیں۔ البتہ وہ سرکاری کاغذات میں مسلمان لکھے جاتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے دفتر میں وہ کامل مسلمان شمار نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ روزہ نہ رکھنا کبیرہ گناہ ہے یہ بھی اس وقت ہے کہ جب وہ روزے کی فرضیت کا اعتقاد رکھتا ہو۔ اور جو اس کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ بلاشبہ کافر ہے۔
سحری کھانے میں برکت ہے:
مسلمانوں کو چاہئے کہ رمضان المبارک میں سحری کے وقت اٹھیں اور حسب ضرورت کھانا تیار کر کے کھائیں۔ اگرچہ ایک دو لقمے ہی ہوں۔ یا کھجور کے چند دانے کھالے۔ کیونکہ یہ کھانا باعث برکت ہے ۔ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
تَسَحَّرُوْا فَاِ نَّ السُّحُوْرَ بَرْکَۃٌ (مشکوٰۃ ص ١٧٥)
سحری کیا کرو کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔
نیز سحری کے وقت اٹھنا اور کھانا کھانا اسلام کا شعار ہے۔ اہل کتاب اس سعادت سے محروم ہیں۔ سید الانس و الجان شاہ کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَصْلُ مَابَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ اَہْلِ الْکِتَابِ اُکْلَۃُ السَّحَرِ ۔ رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ ص ١٧٥)
ہم اہل اسلام اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کا کھانا ہے۔
اہم مسئلہ:
سحری کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے اگر صبح صادق ہو جاتی ہے تو پھر سحری سے الگ ہو جائیں ۔کھانا پینا بند کردیں بعض لوگ اذان فجر سن کر یا سائرن سن کر بھی پانی وغیرہ پیتے ہیں یہ درست نہیںفرض کریں کہ سحری کا آخری وقت ٥ بج کر ١١ منٹ ہے تو فجر کی اذان٥ بج کر ١١ منٹ کے بعد ہوگی لہٰذا ٥ـ بج کر ١١منٹ سے قبل ہر حال میں کھانے پینے سے فراغت حاصل کرلینی چاہئے ۔اگر اذان سنتے وقت پانی بھی پیا تو روزہ نہیں ہوگا۔
روزے کی نیت:
جو صبح صادق سے پہلے سحری سے فارغ ہوں انہیں یوں نیت کرنی چاہئے:
وبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَان
(ترجمہ) میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی
اور سائرن یا اذان سن کر کلّی وغیرہ کرکے اس طرح نیت ہوگی ۔
نَوَیْتُ اَنْ اَصَوْمَ ہٰذَالْیَوْمَ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرَضِ رَمَضَان
(ترجمہ) میں نے آج کے روزے کی نیت کی اللہ کیلئے ماہِ رمضان کے فرضوں سے
افطار:
جب پوری طرح سورج غروب ہوجائے تو حلال اور طیب چیز سے روزہ افطار کرے اور یہ دعا پڑھے۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔
ترجمہ: اے اللہ ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا، اور تجھ پر ایمان لایا ، اور تیرے دیے ہوئے رزق سے افطار کیا۔
سیّدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ مالکِ دو جہاں سرکارِ ابد قرار شافع یوم شمار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَزَالُ الدِّیْنُ ظَاہِرًامَّا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِاَنَّ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ یُؤَْخِّرُوْنَ ۔ رواہ ابو داؤد و ابنِ ماجہ (مشکوٰۃ ص١٧٥)
دین اسلام ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ۔ کیونکہ یہودی و نصرانی افطار میں دیر کرتے ہیں۔
نوٹ:
اس جلدی کا یہ مطلب نہیں کہ ابھی سورج پوری طرح غروب نہ ہوا ہو تو روزہ افطار کرلیا جائے۔ ایسا کرنے سے سارے دن کی محنت ضائع ہوجائے گی اور نہ ہی ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر مزید ہے۔
روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہئے:
یوں تو روزہ ہر حلال چیز سے افطار کرنا جائز ہے مگر طاق کھجوروں سے روزہ افطار کرنا بہت ثواب کا باعث ہے اگر کھجوریں وقت پر نہ مل سکیں تو پانی سے روزہ کھولنا چاہئے۔ سرورِ کائنات فخر موجودات حضرت احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
اِذَا اَفْطَرَ اَحَدُکُمْ فَلْیُفْطِرُ عَلـٰی تَمْرٍ فَاِنَّہ، بَرْکَۃٌ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْفَلْیُفْطِرْ عَلـٰی مَآءٍ فَاِنَّہ، طَہُوْرٌ۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد و ابن ماجہ) (مشکوٰۃ ص١٧٥)
جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو چاہئے کہ کھجوروں سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے ۔ اگر کھجوریں نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔